Breaking News

6/recent/ticker-posts

Insaniat by Fawad Fadi complete brief article..

:آرٹیکل 

"انسانیت "

ازقلم: فواد فادی



حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کی عظیم نسبت ملی ہے جس کی بدولت وہ حیوانات سے ممتاز ہوجاتا ہے۔مگر انسان کی تاریخ کے اوراق گردانتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخ میں سخت نشیب و فراز ہے۔کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ انسان کی تاریخ نہیں بلکہ خونخواروں اور درندوں کی تاریخ ہے۔ اسکے مطالعہ سے انسانیت کا سرجھک جاتا ہے اور بعض ایسے ادوار سامنے آتے ہیں کہ اگر بس چلے تو تاریخ کے اوراق سے ہم انہیں نکال دیں،وہ ریکارڈ ہم بچوں کے ہاتھوں میں دینے کو تیار نہیں۔

 ہر زمانے میں ایسے کچھ افراد رہے ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ بس ہم اور ہمارے اہل و عیال انسان ہیں اور باقی سب ہمارے خادم ہیں۔کروڑوں انسانوں کی بستیاں دیکھنے کے باوجود انہیں اپنے کنبے کے دس گیارہ افراد انسانیت کے حلقہ میں بند آنکھوں سے بھی نظر آتے ہیں اور دوسرے انہیں خوردبین سے بھی نظر نہیں آتے ، ان کو اپنی رائے پربت اور دوسروں کا پہاڑ ذرہ نظر آتا ہے۔مجھے یہاں کہانیاں نہیں سنانی ہیں۔

 لیکن اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ انسانیت میں خرابی کی جڑ کیا ہے اور پھر خرابی کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

دنیا کے مختلف دانشوروں نے ایک بیٹھک لگائی اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق انسانیت میں فساد اور خرابی کی نشاندھی پیش کی۔۔۔جن میں سے بعض کا کہنا تھا کہ خرابی کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا۔۔۔جبکہ کوئی جہالت اور ناخواندگی کو ہی فساد کی جڑ سمجھ رہا تھا۔۔۔کوئی انسانوں کےغیر منظم ہونے اور بد انتظامی کو خرابی بتا رہا تھا۔۔۔کوئی زبانوں کے اختلاف اور کثرت کو ہی انسانوں میں فتنہ کا سبب قرار دے رہا تھا۔۔۔ ایک ہستی تو تہذیبوں (کلچرز) کی کثرت پر نظریں جما بیٹھی تھی کہ یہی آپس میں ٹکراتی ہیں تو انسانوں میں فساد پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ الغرض ہر کوئی اپنے زاویہ نظر سے بساط کے مطابق رائے دہی میں مشغول تھا۔۔۔۔۔

مگر وہاں بیٹھا ایک مرد قلندر ہر ایک دانشور کے جواب پر نفی میں سر ہلا تھا۔۔۔۔ بلآخر اس کی رائے دہی کی باری آئی۔ تمام حضرات انگشت بدنداں بیٹھے اس مرد قلندر کی طرف متوجہ تھے۔کہنے لگا۔۔۔۔ 

دوستو! انسانیت کے مسائل و مشکلات اور فتنہ و فساد کا حل نہ تو زبان و تہذیب کی یکسانیت ہے، نہ ملک و وطن کی وحدت، نہ علم و دولت کی فراوانی ، نہ تہذیب و تنظیم، نہ وسائل و ذرائع کی کثرت ہے۔ ان سب میں ایسی کوئی طاقت نہیں جو انسانیت کی دنیا بدل دے، جب تک دل کی دنیا نہیں بدلتی، باہر کی دنیا نہیں بدل سکتی، پوری دنیا کی باگ ڈور دل کے ہاتھ میں ہے، زندگی کا سارا بگاڑ دل کے بگاڑ سے شروع ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں مچھلی سر کی طرف سے سڑنا شروع ہوتی ہے ،میرا ماننا ہے کہ انسان دل کی طرف سے سڑتا ہے،یہی سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور ساری زندگی میں پھیل جاتا ہے جس سے انسانیت بربادی اور خرابی کی شکار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔

یہی وجہ ہے کہ پیغمبران خدا اپنا کام دل سے شروع کرتے ہیں۔وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ سب دل کا قصور ہے۔انسان کا دل بگڑ گیا ہے تو اس کے اندرچوری،ظلم،دغابازی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ اس کا زبردست میلان برائی کی طرف ہوگیا ہے۔اس لئے سب سے مقدم کام یہ ہے کہ انسانیت کے دل کی اصلاح کی جائے اور اس کے من کو مانجھا جائے۔پس پیغمبر انسان کے اندرونی دنیا کو بدلتے ہیں۔وہ انسان کے قلب و جگر سے محبت کا سرچشمہ نکالتے ہیں، وہ انسانیت کے دل کے اندر بھائی کے لئے تکلیف اٹھانے کی قربانی و ایثار کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ وہ محض قانون یا ڈنڈے سے انسان کا علاج نہیں کرتے بلکہ وہ انسان کے اندر حقیقی انسانیت پیدا کرتے ہیں جس سے ایک ایسی قوم وجود میں آتی ہے جو صحیح انسانیت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردیتی ہے کہ ہم معدہ،پیٹ اور سر کے غلام نہیں، ہم شکم پرست،شوق پرست ،دولت پرست ، بادشاہ پرست یا اہل و عیال پرست نہیں بلکہ حقیقی انسانیت کے معیار ہیں۔

یہ مرد قلندر اپنی رائے دیتے ہوئے پیغمبران خدا کے ادوار کی چند ثابت شدہ مثالیں پیش کرکے اپنی بات پوری کرتا ہے تو حاضرین میں موجود ایک دانشور اس عرض کے ساتھ نشست برخواست کرتا ہے۔۔۔۔ "دوستو! ہم چاہتے ہیں کہ پھر یہی ایثار و قربانی کے جذبوں سے سرشار زندگی عام ہو، انسانیت کی بے لوث خدمت ہو، بے غرض محبت کا رواج ہو،پھر سے دوسروں کے نفع کے لئے اپنے نقصان کو ترجیح دی جائے"

ایک مسلم حقیقت ہے کہ پیغمبران خدا انسانیت کے سب سے عظیم علمبردار ہیں۔


السلام علیکم ۔۔ قرطاس اردو ادب کی جانب سے آپ کو یہ آرٹیکل کیسا لگا؟ ۔۔ اپنی رائے کا اظہار کمنٹ سیکشن میں کریں

Post a Comment

1 Comments