:آرٹیکل
تحریر:حسد
ازقلم : کنول مخدوم
آج ہماری تحریر کا عنوان حسد ہے اس لفظ کو میں احادیث میں لکھنا چاہوں گی ،
’’حسد‘‘ کہتے ہیں کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے، چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو۔ یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بودیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہوجاتے ہیں، اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیں۔۔
آپ نے سنا ہو گا کہ نظر کا لگنا ایک محاورہ کے طور پر بولا جاتا ہے، مگر اسلامی نقطئہ نظر سے نظر کا لگنا برحق ہے اور یہی بد نظری ہوتی ہے جو حاسد انسان کو حسد کی وجہ سے کسی دوسرے انسان کو لگتی ہے۔۔ہر اخلاقی برائی کا اثر سب سے پہلے اس برائی میں مبتلا انسان پر ہوتا ہے جسکی بدولت وہ انسان مثال کے طور پر اگر حسد کرنے کی برائی میں مبتلا ہے تو یہ اخلاقی و روحانی بیماری اسکے اپنے ذہن و قلب کے سکون کو برباد کرتی ہے اور پھر اس حاسد انسان کی یہی بے سکونی جب شدت اختیار کر لیتی ہے تو پھر وہی روحانی طور پر بیمار انسان اپنے اردگرد کے لوگوں اور معاشرے میں اپنی منفی سوچ اور فعل کی وجہ سے بد امنی کا باعث بنتا ہے۔۔
معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر ہادیِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو حسد، کینہ، بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد، موافقت ویگانگت اور بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم،ج:۴،ص:۱۹۸۳)
ایک دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں آیا ہے کہ:
’’ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے۔‘‘(سنن ابی داؤد،ج: ۴، ص:۲۷۶)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’دو شخصوں کے سوا کسی پر ’’حسد‘‘ کرنا جائز نہیں: ایک وہ شخص کہ جس کو حق تعالیٰ شانہ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہو۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو حق سبحانہ وتعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہو۔‘‘(صحیح بخاری، ج:۹، ص:۱۵۴، جامع ترمذی،ج :۴، ص:۳۳۰)
اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی امور میں رشک کرنا ایک مستحسن عمل ہے کیونکہ اس سے دینی میدان میں مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور انسان روحانیت کے اعلیٰ مدارج کو پانے کی نہ صرف دل میں تڑپ پیدا کرتا ہے بلکہ ان بلند درجوں اور مراتب کو پانے کی کوشش اپنی عبادت کے ذریعے کرتا ہے۔۔
ایک حاسد انسان اپنا علاج خود کر سکتا ہے بشرطیکہ اسکو پہلے یہ ادراک حاصل ہو کہ وہ حسد کی روحانی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے جب بیماری کی تشخیص ہو جائے تو علاج کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے ، پہلے تو اپنی منفی سوچ کر بدل کر مثبت میں لانی ہوگی ، ہماری بہت سی بیماریوں کا علاج اچھی اور مثبت سوچ ہے۔۔
اسمٰعیل بن اُمیہؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تین چیزیں ایسی ہیں جن سے آدمی عاجز نہیں : ۱:-بد شگونی، ۲:- بدظنی، ۳:- حسد
امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ حسد‘‘ وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا، یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا۔اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا ، یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔(المجالسۃ وجواہر العلم،ج:: ۳،ص:۵۱)
الغرض حسد، کینہ، بغض اور کھوٹ یہ ایسی باطنی اور روحانی بیماریاں ہیں جو اوّل تو انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیتیں، بلکہ اُلٹا پہلے سے جو نیک اعمال اُس نے کیے ہوتے ہیں، اُن کو بھی کو ضائع کردیتی ہیں اور اس طرح رفتہ رفتہ انسان اعمالِ صالحہ سے دور ہوتے ہوتے معاصی اور گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق چھین لیتے ہیں، اور وہ کوئی نیک عمل نہیں کرسکتا، اللّٰہ پاک ہمیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھے ہمارا اور آپکا حامی وناصر ہو آمین الٰہی آمین
السلام علیکم ۔۔ قرطاس اردو ادب کی جانب سے آپ کو یہ آرٹیکل کیسا لگا؟ ۔۔ اپنی رائے کا اظہار کمنٹ سیکشن میں کریں
1 Comments
v good . keep it up
ReplyDelete