"خُدا نگہبان"
از: فاطمہ ساجد
١: زندگی نت نٸے مقابلوں کا مجموعہ ہے،جو روز ہمارے سامنے الگ الگ صورت میں نمودار ہوتے ہیں،یہ بہت بڑے بھی ہو سکتے ہیں اور کبھی بہت چھوٹے بھی پر ہمیں ہر لمہہ تیار رہنا چاہیےکہ ہر موڑ سوچ سمہجھ کر پار کرے تاکہ ہم سے کوٸی ایسا فیصلہ نہ ہو جاۓ جس سے ہمیں یا کسی اور کو کوٸی نقصان ہو۔آخر کو یہ زندگی ایک سفر مسلسل ہے سفر میں ہم نے جو بھی اکٹھا کرنا ہے اُسے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر اپنی منزل تک جانا ہے ، ہمیشہ ہمیشہ کیلۓ اپنے خالق کے پاس ۔
اس لیے ہمیں اپنے حصے کے کام پر دھیان دینا چاہیے نا کہ کسی اور کے ۔۔۔۔
بقول شاعرہ
” اُسنے یہ کیا،وہ کہا،کرتے ہی ختم ہوجاۓ گا، سفر زندگی کا
ہے تم نے کیا کیا،جب پوچھے گا خدا ہوگا آغاز پھر آخرت کا “
اگر ہم بس اس بات کو زہن میں رکھ کر زندگی گزارے تو ہمارے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔
٢: انسان صرف وہ کرتا ہے جو اُسے پسند ہو اور جس میں اُسے دنیا میں کامیابی حاصل ہو۔وہ اپنے نفس کی زیادہ مانتا ہے کیونکہ اُس کے پاس ہوتا ہی اُس کا نفس ہے،وہ اچھا بھی ہوسکتا ہے اوربُرا بھی۔کیونکہ اُس کے پاس ایسا کچھ نہیں ہوتا جس سے وہ رہنماٸی حاصل کرے۔وہ یہ سب فقط اپنی خوشی کیلۓ کرتا ہے۔
٣: مسلمان کو ہر موڑ پر رہنماٸی دی جاتی ہے۔ کیونکہ وہ صرف اللّٰه پریقین کرتا ہے اور اپنی ناکامیاں ،کامیابیاں سب اُسے پر چھوڑ دیتا ہے۔وہ بھٹکتا ہے پر پھر واپس اپنے مالک کے پاس ہی آ جاتا ہے۔وہ جو بھی زندگی میں کرتا ہے اپنے رب کی رضا کے لیے کرتا ہے،یہ اُس کے جٸنے کا مقصد ہوتا ہے۔
٤: انسان مسلمانیت کے بغیر اور مسلمان انسانیت کے بغیر ہرگز مکمل نہیں ۔
انسان کو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر رہنماٸی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اور اسلام کے علاوہ اور کوٸی چیز اُسے گمراہی سے نہیں بچا سکتی۔اسلام تو اتنا پیارا مذہب ہے جو مسکرانے کو بھی ثواب قرار دیتا ہے۔اسلام ہی تو انسان کو اپنے پروردگار سے ملواتا ہے اُس کی پہچان کرواتا ہے ۔پھر انسان اپنی ساری تکلیفیں،پریشانیاں اللّٰه کو بتاتا ہے،قرآن سے اُس کا حل تلاش کرتا ہےاور قرآن اُسے صبر اور برداشت کا تحفہ دیتا ہے۔
اور کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ خودکشیاں ایسے ممالک میں ہی ہوتی ہے جو اللّٰه پر، موت پر اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ اس لیے جب وہ کسی پریشانی میں ہوتے ہیں تو اُنہیں سمہجھ ہی نہیں آتا کہ وہ کیا کرے ، کہاں جاۓ یا کس کو اپنا حالِ دل سُناۓ،یہی سوچ سوچ کر وہ ڈپریشن اور پھر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح مسلمان کو بھی زندگی گزارنے کیلۓ انسانیت کو مدنظر رکھنا چاہیےکہ اپنا لکھا پڑھا دوسروں کو سمجھانے کےلیے اُسے انسانیت سے کام لینا پڑے گا۔ اسلام کو زبردستی کسی پر تھوپ دینے کو تبلیغ نہیں کہا جاتا۔جیسے کہ وہ لوگ جو بہت دینی بنتے ہیں۔پر اپنے گھر کی عورتوں پر بہت زیادہ سختی کرتے ہیں اور کہتے پھڑتےہےکہ یہ تو ہم سے کم تر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے جن میں انسانیت ہی نہیں ہوتی۔
اپنی عورتوں کو پردے کا کہنا اُن کی حفاظت
کےلیے کچھ کرنا غلط نہیں ہے پر اس کو مثبت طریقے سے کرنا غلط ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ قرآ ن کی گہرایوں کو سمہجھے ناکہ اپنی پسند کی آیات کو دوسروں پر مسلط کریں۔پر وہ قرآن کا اصل مطلب نہیں سمہجھتے کہ قرآن تو نام ہی سیکھنے کا ہے تو اسے ایک ہی بار میں،وہ بھی سختی سے کسی کے دل و دماغ میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے۔
0 Comments