"تبدیلی "
از: فاطمہ ساجد
چھوٹے بچے ہر بات کو بہت نوٹ کرتے ہیں ہم سمہجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہو گےاور ہم نے بہت کچھ دیکھا ہمیں سب پتا ہے پر مجھے لگتا ہے کہ بچو کو زیارہ سینس ہوتی چیزوں کو سمہجھنے کی اور وہ نقلی چہروں کے پیچھے چُھپے اصلی چہروں کو بھی جلد پہچان لیتے ہیں۔ ہم اپنے سے چھوٹوں پر بہت زیادتی کرتے ہیں اگر وہ ہم سے اُنچی آواز میں کوٸی بات کہیں تو ہم اُس بات کی شدت کو نہیں بھانپتے بلکہ بس اُس کی اُنچی آواز کو سُنتے ہیں۔اُنہیں جج کرتے ہیں،غلط کہتے ہیں بُرا بھلا کہتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ہمارے بڑوں نے بھی ہماری ایسے ہی پرورش کی تھی۔اس سے پتا چلاتا ہے کہ ہم نے اپنے سے کچھ نہیں سیکھا سب ورثے میں ملا اُٹھاۓ پھر رہے ہیں۔اب ہمارے والدین ہمیں موباٸل چلاتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اپنے دور میں باغوں میں کھیلنے جایا کرتے تھے۔ سب سہلیوں کے گھر بھی اپنے گھر لگا کرتے تھے۔ آج کے بچوں کو تو موباٸلوں نے خراب کر دیا ہیں!
کوٸی اُن سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب باہر کھیلنے کودنے کے حالات ہی نہیں ہیں اب سہلیوں کے گھر بھی اپنے گھر نہیں بن پاتے۔
جس کی وجہ سے بچوں کو گھر میں ہی رہ کر تفریح کا زریعہ بناناپڑتا ہے۔۔اُنہیں موباٸلز میں ہی دنیا دیکھنی پڑتی ہیں۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بڑوں کو اپنا دور آنے والی نسلوں پر مسلط نہیں کرنا چاہیں دنیا بدل رہی ہیے ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے بڑھ کر ہوگی۔
اس بات کو سمہجھے نا کہ ہر بات کو نٸی نسل پر یہ کہہ کر مسلط کرے کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔
اگر وہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور وہ غلط بھی نہیں ہے تو اُنہیں یہ کہہ کر نا اُمید نہ کرے کہ یہ تو کبھی کسی نے نہیں کیا تمہاری الگ ہی سوچ ہے،دنیا والے کیا کہے گے وغیرہ وغیریہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے دنیا دیکھی نہیں ہوتی بس چار پانچ شہر دیکھ وہ اپنے آپ کو بہت بڑا صلح کار سمہجھ لیتے ہیں۔ یقین مانے جس نے ساری دنیا دیکھی ہو وہ کبھی ایسا نہیں کہے گا کہ کچھ بھی ناممکن ہو سکھتا ہے کیونکہ انسان کواللّٰه نے بنایا ہی ایسے ہے کہ اُس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ جو کبھی نہ ختم ہونے والا ایک سرکل ہے۔اگرآپ کے بچے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں یہ کبھی بھی مت کہیں گا کہ تم یہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی اور کو کہنے دیجیےگا۔ کیونکہ یہ الفاظ اُس کا جذبہ جنونہ سب چھین لیتے ہیں بچو کو ہمیشہ اُمید اور حوصلہ دیجیے۔
0 Comments